اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
*صبح بخير*
🌸👈20 ربیع الاول1440ھ
🌸👈29 نومبر 2018ء
🌸👈15 مگھر 2075ب
🌸👈بروز ۔۔۔۔۔۔۔ جمعرات
🌹🍁🌷🌹🍀🌸🍀🌹🌷🍁🌹
تمام تعریفیں اللہ رب العزت کیلئے جسکےقبضہ قدرت میں کائنات کی ہر چیز ہے
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
اَلۡحَمۡدُ لِلہ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ○الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِۙ○
مٰلِكِ يَوۡمِ الدِّيۡنِؕ○اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕ○
اِهۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِيۡمَۙ○صِرَاطَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ َۙ○غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا الضَّآلِّيۡن○
(آمین)
درود و سلام جناب نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں۔
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
🌹🍁🌷🌹🍀🌸🍀🌹🌷🍁🌹
*حدیث نبی کریم ﷺ*
🌹 سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا
*وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللہ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ
اور وہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو الله کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی
(سنن ابی داؤد جلد 1 حدیث نمبر 1508)
🌹 سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قرآن سفارش کرنے والا ہے اور اس کی سفارش قبول کی جائے گی۔ جو شخص اسے اپنے سامنے رکھے گا اسے جنت کی طرف لے جائے گا اور جو اسے اپنی پیٹھ کے پیچھے رکھ دیگا (یعنی اسے پڑھناچھوڑ دیگا) اسے جہنم کی طرف ہانک کر لے جائے گا۔
(السلسلہ صحیحہ ۲۸۷۶)
🌹🍁🌷🌹🍀🌸🍀🌹🌷🍁🌹
*نبی کریم ﷺ کی رحلت*
ربیع الاول کے مہینےمیں جہاں ہم اپنے پیارے رسول ﷺ کا یوم پیدائش مناتے ہیں وہاں ہمیں اس اسلامی مہینے کی تاریخ میں دوسری اہمیت کا علم ہونا بھی اشد ضروری ہے۔
آئیے دیکھیں کہ اس مہینے کی کیا اہمیت ہے۔ یہ بات نوٹ فرما لیں کہ 12 ربیع الاول کے دن نبی کریم ﷺ کی پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ غوث اعظم حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک آپ ﷺ کی تاریخ پیدائش 10 ربیع الاول ہے اور جمہور علمائے دین و محدثین کے نزدیک 9 ربیع الاول۔ اور بعض کے نزدیک یہ تاریخ 12 ربیع الاول ہے۔
ہاں ! البتہ آپ ﷺ کی وفات کی تفصیل تاریخ یوں بیان کرتی ہے:-
12 ربیع الاول بروز سوموار نماز فجر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کچھ سنبھل گئی۔ آپﷺ نے اپنے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھایا۔
اسی دوران آپ نے مسواک بھی کی۔ آپ کے سامنے پانی کا پیالہ رکھا ہوا تھا اس میں دونوں ہاتھ ڈبو کر چہرہ انور پر ملتے تھے اور فرماتے تھے ”لا الہ الا اللہ ان للموت سکرات“ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں موت کی بڑی تکلیف ہے۔ اس کے بعد ہاتھ پھیلا کر کہنے لگے: ”فی الرفیق الاعلیٰ“ اسی میں آپ کی وفات ہو گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللھم صلی علی محمد وعلٰی آلہ واصحابہ وبارک وسلم دائماً ابدا۔
آپ کی وفات کی خبر سن کر محبان رسول (ﷺ) کے ہوش و حواس گم ہو گئے۔ آوازیں بند ہو گئیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر سکتہ طاری ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ زمین پر بیٹھ گئے اور ان میں کوئی سکت نہ رہی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اتنا غم لیا کہ عقل کھو بیٹھے اور انہوں نے تلوار کھینچ لی اور کہا جو شخص یہ کہے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ہے میں اس کو قتل کر دوں گا۔ پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں آپ کے چہرہ انور سے چادر ہٹا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا:
میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ بے شک وفات پا گئے ہیں۔ پھر آپ باہر تشریف لے آئے، مدینہ کے لوگ زاروقطار رو رہے تھے۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ جو غم سے نڈھال اور حواس کھو بیٹھے تھے تلوار لے کر کھڑے تھے اور یہ کہہ رہے تھے جو شخص یہ کہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں میں اس کو قتل کر دوں گا۔ ایسے حالات میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حالات کو کنٹرول کیا اور آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا:
”لوگو سنو ! جو شخص محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتا تھا (وہ جان لے کہ) محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں۔ اور تم میں سے جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ زندہ ہے۔ وہ کبھی نہیں مرے گا پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
وما محمد الا رسول قدخلت من قبلہ الرسل
ابن ابی شیبہ میں ہے "سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان آیات کو تلاوت فرمایا"۔
*انک میت وانھم میتون° وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد°*
”بے شک آپ بھی مرنے والے ہیں اور بے شک وہ (سب لوگ) بھی مرنے والے ہیں۔ اور آپ سے پہلے کسی بشر کے لئے ہمیشگی و دوام نہیں ہے۔“
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد سب لوگوں کی زبان پر وہی آیتیں تھیں جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر تلاوت کی تھیں۔
خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل امت کے لئے معتبر قرار دیا گیا ہے۔ یہ نفوسِ قدسیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارہ پر اپنا مال و متاع اور جان قربان کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے تھے اور آپ کے اشارے پر ہر وقت مرمٹنے کے لئے مستعد اور تیار رہتے تھے۔ صحابہ کرام کے بعد تابعین و تبع تابعین کا دور خیر القرون کہلاتا ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ، امام شافعی رحمتہ الله علیہ، امام مالک رحمتہ الله علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمتہ الله علیہ کی تعلیمات و ارشادات اور ان کی فقہی کتب میں بھی اس دن کو آپ کی ولادت کے بجائے آپ حضرات کے نزدیک یہ دن نبی کریم ﷺ کی وفات کا دن ہے۔
اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ 12 ربیع الاول کا دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا دن ہے۔ اب سے کچھ عرصہ قبل تک لوگ اس دن کو بارہ وفات کے نام سے یاد کیا کرتے تھے۔ آپ کی ولادت باسعادت تو اکثریت کے نزدیک 9 ربیع الاول کو ہوئی ہے۔
اگر آپ کا یوم ولادت 12 ربیع الاول ہی تسلیم کر لیا جائے تو ولادت اور وفات کا دن ایک ہی ہوا ، اسلئے ہمیں بحیثیت مسلمان انکے جانے کا غم ہونا چاہیئے اور اپنی زندگی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا چاہیئے نیز آپ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں اپنی زندگی کے شب و روز گزارنے چاہیئں۔
اللہ رب العزت ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
No comments:
Post a Comment